Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”اس شاعری میں سنی کی دلی کیفیات کسی نہ کسی طرح ظاہر ہیں اگر تم سمجھو تو بہت کچھ ہے اس میں……معنی کی زندگی دل وامنگیں اور نہ صرف لفظوں کے جوڑ توڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے……“ وردہ بے حد خراب موڈ کے ساتھ رجاء کو سلمان کی بھیجی ہوئی نظم سنا رہی تھی جو اس نے وردہ کی سیل پر رجاء کے لیے بھیجی تھی۔

”میں کیا کروں وردہ! میں مجبور ہوں۔ میری امی نے میری تربیت ایسی نہیں کی کہ میں نامحرم سے بات کروں۔
ان سے روابط بڑھاؤں اپنے ابو کے فخر واعتماد کو میں کس طرح ملیامیٹ کر سکتی ہوں؟ مجھے سمجھو……“

”اچھا اچھا بیٹھی رہو بی ملانی! سنی کی حوصلہ افزائی کرتے وقت تمہیں یہ سب باتیں یاد تھیں؟ کسی کی زندگی کو محبت کاروگ لگا کر تمہیں یہ سب یادآرہا ہے؟“ وردہ جو پہلے ہی غصے میں آئی تھی۔
(جاری ہے)

اس کی باتیں سن کروہ تپ کربولی۔

”غلط بیانی سے کام مت لو تم اچھی طرح جانتی ہو۔
میں نے کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔“ رجاء نے چڑ کر کہا۔

”ارے! کیا ہوا……؟ آج تو بہت بدلے بدلے موڈ میں دکھائی دے رہی ہو۔“ وردہ کو حیرت ہوئی کہ رجاء ہمیشہ ہی اس کے جار حانہ مزاج کے آگے ہتھیار ڈال دیا کرتی تھی اب اس کے مزاج میں سرد مہری تھی۔

”میں تنگ آگئی ہوں ہر وقت کی ٹینشن سے پلیز……پلیز وردہ! مجھے معاف کردو میں سنی کا ساتھ نہیں دے سکوں گی۔
اس کو کہوں مجھے بھول جائے میں بے حد عام سی لڑکی ہوں اس کو بہت اچھی و خوب صورت لڑکی مل جائے گی۔“ اس کے چہرے پر حزن واداسی پھیلتی چلی گئی۔ وہ دیکھ رہی تھی اس کی امی اسی کے دل کے ارادوں سے بے خبر اس کی پڑھائی کا بوجھ سمجھ کر اس کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے لگی تھیں۔ اس کو پُر مغزغذائیں دے رہی تھیں گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دے رہی تھیں۔
قرآنی سورتیں پڑھ کراس پردم کر رہی تھیں۔ وہ بچپن سے والدین کی لاڈلی رہی تھی لیکن اب خود وہ اپنا احتساب کر رہی کر رہی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرنے جا رہی ہے؟

”ایسا تو نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ تم کو بھول جائے……“ وردہ کے انداز میں ایک دم ہی نرمی و ہمدردی سمٹ آئی تھی۔”پہلی بار اس نے تمہاری چاہ کی ہے اور پہلی محبت کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔
تم خود کو سنبھالو جدائی کا توسوچو بھی نہیں ورنہ……“ وہ کچھ توقف کے بعد پھر گویا ہوئی۔ ”ورنہ وہ خود کشی کرلے گا اور اس کا خون تم پر ہو گا۔“

”ایسا مت کہو کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا یہ صرف جذباتیت ہوتی ہے۔“

”تم میری دوست ہو اس کو سمجھا دوبتا دو یہ ممکن نہیں ہے۔ میں مجبوریوں میں جکڑی ایک بے بس لڑکی ہوں جو اپنی تمناؤں کا تو خون کر سکی ہے مگر والدین و خاندانی رسم ورواج سے بغاوت نہیں کر سکتی ہے۔
“ کہتے کہتے اس کی آواز رُندھ گئی تھی۔ خوب صورت آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ وردہ نے محبت سے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔

”تمہاری دوست ہوں تب ہی تو چاہتی ہوں تم اچھی وپر آسائش زندگی گزارو۔ دوست سے بڑھ کر دوست کا خیر خواہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔“ لوازمات کی ٹرے اٹھائے اندرآتی رضیہ نے وردہ کے اختتامیہ جملے سن لیے تھے وہ ٹرے درمیانی میز پر رکھ کر اطمینان سے گویا ہوئیں۔

”تم جیسی نیک واچھی سہیلی ملی ہے میرے بیٹی کو مجھے بہت خوشی ہے بیٹی! تم ہی سمجھاؤ اس کو کیوں یہ خود کو ہلکان کررہی ہے عجیب ہی اس بار اس کے امتحان ہو رہے ہیں بھوک و پیاس سب ہی مٹ گئی ہے بد حواس رہنے لگی ہے۔ فون کی بیل ہو گئی تو کمرے کی طرف بھاگتی ہے۔ اپنے گھر کی کال بیل پر بھی حواس باختہ ہو جاتی ہے۔ چہرے سے دیکھ کتنی زردو بیمار نظر آرہی ہے۔
“ ان کے لہجے میں ممتا بھری تشویش تھی۔ رجاء کی نگاہیں جھک گئیں۔ ”نامعلوم کیسے امتحان ہیں اس باراللہ سے میری یہی دعا ہے کہ وہ کرم کرے۔“

”میں بھی اس کو یہیں سمجھارہی ہوں۔ ہمت و حوصلے سے کام لے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ وردہ نے ان کے سامنے موٴدب انداز اختیار کر لیا تھا۔

”جیتی رہو میں نے تمہاری پسند کے مایونیز سینڈوچ بنائے ہیں۔
کھالو ٹھنڈے ہو کر بے مزا ہو جائیں گے۔“ وہ کھڑی ہوتی گویا ہوئی تھیں۔

”آنٹی! ایک بات کہوں آپ برا نہیں مانیں گی؟“ وردہ نے دبے لہجے میں اجازت کر لیا تھا۔

”نہیں! تمہاری بات کا میں بُرا کیوں ماننے لگی؟“ وہ مسکرائیں۔

”میرے خیال میں رجاء کو کچھ وقت کسی تفریح کی جگہ پر گزارنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں؟ میری ماما نے سمندر کنارے جانے کا پروگرام بنایا ہے۔
میں ماما اور میری کزنز ہوں گی کوئی مرد نہیں ہو گا ساتھ…“ وردہ کے زرخیز ذہن نے فوری منصوبہ بندی کی۔

”نہیں خیر مجھے کیا اعتراض ہو گا…مگر رجاء کے ابو نہیں مانیں گے۔“

”ارے آنٹی! یہ کیا بات ہوئی میری ماما تو ڈیڈی سے بڑی سے بڑی بات منوا لیتی ہیں۔آپ یہ معمولی سی اجازت بھی نہین لے سکتی؟“

”مجھے شروع سے اپنی منوانے کی عادت نہیں ہے۔
جو انہوں نے کہہ دیا میں نے مان لیا کہ وہ کبھی کوئی غلط بات نہیں کہتے۔ جس پر مجھے اعتراض کی ضرورت محسوس ہو اگر رجاء گھر کے ماحول سے یکسانیت محسوس کر رہی ہے تو میں اس کو عزیزوں کے ہاں لے جاؤں گی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپو، چچی سب ہی موجود ہیں۔“ رضیہ ایک مکمل دین دار اور گھریلو عورت تھیں۔ ان کو قرات کی عادت تھی۔ گھر کے کاموں می مشغول رہتے وقت بھی ان کے لب وزبان قرآن پاک کی تلاوت سے معطر رہتی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا لہجہ بہت پر سکون ودلآ ویز تھا۔

”ان لوگوں کے ہاں کوئی تفریح ہوتی ہے۔“ وردہ ہنس کر بولی۔

”اپنوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے وہ ایک عمدہ تفریح ہوتی ہے بیٹی!“

”آنٹی پلیز……پیاری آنٹی…… آپ انکل کو نہ بتائیں رجاء کے جانے کا۔“

”ایسا تو ممکن نہیں ہے میں ان سے چھپاؤں یا جھوٹ بولوں……ہاں یہ میرا وعدہ ہے ان کو راضی کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔“ وہ کہہ کر چلی گئیں۔

”میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی۔“ رجاء نے کہا مگر وہ معنی خیز انداز میں مسکراتی رہی۔

###

”عالہ ! اوہ عادلہ! کا نوں میں تیل ڈال کر بیٹھ گئی ہے کیا؟“ ان کے کئی بار پکارنے پر بھی عادلہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہی تو دادی جان اس کے قریب آکر گویا ہوئیں کانوں میں ہینڈ فری لگائے عادلہ گھبرا کر کھڑی ہوئی تھی۔” اللہ کی مار! ایسے شوق پر جو اچھے بھلے انسان کو بہرہ بنا دے۔

”کچھ کہہ رہی ہیں دادی جان!“ وہ کھڑی ہو کر گویا ہوئی۔

”ہاں! جا کر ذرا طغرل کا کمرا تو صاف کردو بالکل صفائی سے۔“

”میں……؟ مجھ سے صاف کیسے ہو گا؟“ وہ حیرانی سے بولی۔

”لو اس می اتنی حیرانی کی کیا بات ہے کمرا صاف کرنے کو کہا ہے پہاڑ کھودنے کا نہیں کہا جو آنکھیں پھٹ گئی ہیں۔“

”مجھ کو گرد سے چھینکیں آتی ہیں ایسا کام مجھ سے ہرگز نہیں ہو گا۔
“ وہ منمنائی تھی۔

””نکمی! ہڈ حرام! ہر کام میں تیرے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ کچن میں کام کرنے سے تجھے دمہ ہونے لگتا ہے۔ کپڑے دھونے سے تیرا سانس اُکھڑنے لگتا ہے برتن دھونے سے تجھے نفرت ہے اور اب تو جھاڑو بھی نہیں دے سکتی۔“ دادی جان کو اس کی ہر بُری عادت سے چڑتھی۔

”اماں جان! آپ کو احساس نہیں ہے بچیاں جوان ہو گئی ہیں۔
“ صباحت فوراً ہی بیٹی کی مدد کو پہنچ گئی تھیں۔

”اچھا……جوان ہو گئی ہیں تو سر پر بٹھالوں؟“

”جوان بچیوں کی تعریفیں کی جاتی ہیں حوصلہ فزائی کی جاتی ہے لیکن آپ تو بات بات پر ان کو بے عزت کرتی ہیں۔تمام برائیاں آپ کو میری عادلہ اور عائزہ میں دکھائی دیتی ہیں آپ کی نگاہ میں دودھ کی دھلی صرف پری ہے میرے ہوتے ہوئے میرے بچیوں کو احساس کمتری کا شکار کیا جا رہا ہے اور ایک وہ ہے جو بن ماں کے بھی یہاں عیش کر رہی ہے۔
“ صباحت کے لہجے میں سخت کبیدگی و ناگواری تھی۔

”ماتھے پر آنکھیں رکھنی مجھے آتی ہیں بہو! لیکن مجھ میں ابھی شرم و لحاظ کچھ باقی ہے جو تمہیں تو چھو کر ہی نہیں گزری ہے اور مجھ بوڑھی طوطی کو الٹا سبق نہ پڑھاؤ سوتیلے سگے کا خناس تمہارے دماغ میں بھرا ہوا ہے میرے دل میں نہیں میری نگاہوں میں فیاض کی سب اولاد برابر ہے۔“

”پری سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے وہ صرف فیاض کی بیٹی ہے۔

”اگر تم یہ سمجھتی ہو تو یہی سہی۔“ وہ بے پروائی سے گویا ہوئیں۔

”حقیقت تو یہی ہے اس گھر میں میری حیثیت نہیں ہے تو میری بیٹیوں کی حیثیت کیسے ہو گی آپ نے ہمیشہ مجھ سے اور بچیوں سے منافقت برتی ہے۔“ وہ آنسو بہانے لگیں۔

”یہ تو وہ ہی مثال ہو گئی کہ بے مارے کی توبہ! میں ان مگر مچھ کی آنسوؤں سے مرعوب ہونے والی نہیں ہوں۔ تم کو یہ تو احساس ہو گیا ہے کہ تمہاری بچیاں بالغ ہو چکی ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہے اس عمر میں بچیوں کی بے جا حمایت کرنا ان کو تباہ کر دیتا ہے۔

”کیا بے جا حمایت کی ہے میں نے بتائیں تو ڈرا؟“

”عادلہ عائزہ کو کسی کام کا کہو تم فوراً حمایت کو آجاتی ہو گویا میں ان کی دشمن ہوں میرا کوئی حق نہیں ہے ان پر؟“

”میری بچیوں کا حق بچپن سے وہ پری بٹور رہی ہے۔“

”میں کہتی ہوں صباحت! پری جیسی مظلوم صبرواستقامت والی لڑکی کوئی ہو ہی نہیں سکتی ہے ماں اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ بن ماں باپ کے بچوں کی طرح پلی ہے اور اتنی صابر ہے کہ آج تک اپنے لبوں پر حرف شکایت نہیں لائی اس کا صبر مت سمیٹو۔
“ وہ آبدیدہ ہوئیں۔

”صابرو مظلوم! ہونہہ! گز بھر کی زبان رکھ کر بھی وہ معصوم ہے؟“

”یہ تم اچھی طرح جانتی ہو یہاں کس کی گز بھر کی زبان ہے، ایسی عورتوں کی بیٹیاں کبھی گھر نہیں بسا سکتی ہیں جو ان کی غلطیوں پر ٹوکنے کی بجائے بے جا حمایت لیں، اگر تمہارے یہی چلن رہے تو اللہ ہی حافظ ہے میرے بچے کا۔“ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئیں۔

پری پڑوس میں قرآن خوانی میں گئی تھی فیاض اور طغرل کو چھوٹی پھوپو کا بیٹا معید ساتھ لے گیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جا رہا تھا۔ گھر می بس وہی لوگ تھیں اور فیاض کی غیر موجودگی میں صباحت کو دل کی بھڑ اس نکالنے کا موقع مل گیا تھا وہ ایسی ہی بددماغ عورت تھیں۔ شامل ڈھلے جب پری واپس آئی تو دادی کو بے حدنڈھال و مضمحل دیکھ کر ان کے قریب بیٹھ کر پریشان سے گویا ہوئی۔

”دادی جان! خیریت تو ہے……؟ کیا ہوا آپ خاصی افسر وہ دکھائی دے رہی ہیں؟“‘

”کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔“ انہوں نے غور سے اس کے خود پر جھکے چہرے کو دیکھ کر کہا۔

”کچھ تو ہوا ہے میں گئی تھی تو آپ بالکل ٹھیک تھیں۔“ وہ نرمی سے ان کا سردباتی ہوئی گویا ہوئی تھی۔ اس کے انداز میں فکر مندی نمایاں تھی وہ اسی طرح ان کی معمولی معمولی بیماری سے خوف زدہ ہو جاتی تھی اور کوشش کرتی وہ کبھی بیمارنہ ہوں۔

”تم کیوں اتنی جلدی پریشانی ہو جاتی ہو پری! تمہاری دادی بوڑھی عورت ہے اس عمر میں بیماریاں سائے کی طرح ساتھ رہتی ہیں۔“ وہ محبت سے اس کے سرپر ہاتھ بھیرتے ہوئے بولیں۔

”میں آپ کو بیمار نہیں دیکھ سکتی آپ بیمار مت ہوا کریں۔“

”پگلی! بیمار بھی کوئی اپنی مرضی جسے ہوتا ہے؟ اچھا چل ذرا جا کر اپنا کمرا تو صاف کر دے۔ “ میٹھے لہجے میں وہ مطلب پر آئیں۔

”کمرا تو صاف ہے صبح ہی تو ماسی صاف کر کے گئی ہے“ پری دادی کے کمرے کو ظائرانہ نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

”ارے اس کمرے کی بات نہیں کر رہی ہوں میں۔“

”پھر کس کمرے کی بات کر رہی ہیں؟“

”تمہارے کمرے کی صفائی کا کہہ رہی ہوں جس میں آج طغرل رہ رہا ہے۔“

”میرا کمرا نہیں ہے وہ اب……“ ایک دم اس کا موڈ بگڑا۔

”اب نہیں……مگر کچھ دنوں بعد تمہارا ہی ہو گا تم ذرا صاف کردو اس کو۔

”وو دو ماسیاں کس لیے لگائی گئی ہیں؟“

”طغرل کی بے پرواہ طبیعت سے میں واقف ہوں۔ وہ اپنی قیمتی چیزوں کا خیال رکھنے کا عادی نہیں ہے اور ماسیوں کا کیا بھروسا! کوئی ہاتھ کی صفائی دکھاگئی تو کون پکڑے گا اس کو ……پھر وہ شکایت کرنے والا بھی نہیں ہے۔“

”جب ان کو پرو انہیں ہے تو آپ کیوں پرواہ کر رہی ہیں؟“

”اگر تم کو نہیں کرنا تو منع کر دو یا عادلہ کی طرح کوئی بہانہ کر دو۔
مگر خوامخواہ میرا دل خراب مت کرو میں خود کر لوں گی۔“ ایک بے نام سی اداسی ان کے لہجے میں درآئی تھی اور عادلہ کا حوالہ ملنے پر اس کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یقینا مما نے عادلہ کی حمایت کی ہو گی اور دادی جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتی ان سے کھٹ پٹ کر بیٹھی ہوں گی۔

”سوری دادی جان! میں خود صفائی کر دیتی ہوں آپ دکھی مت ہوں۔“ ان کو خوش کرنے کے لیے وہ اپنے دل پر جبر کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔

”جگ جگ جیو……سدا آباد رہو جس طرح تم میری خوشی کا خیال رکھتی ہو اس سے زیادہ رب کریم تم پر تاحیات خوشیاں نچھاور کرے آمین۔“

   2
0 Comments